EN हिंदी
دیپ تھا یا تارا کیا جانے | شیح شیری
dip tha ya tara kya jaane

غزل

دیپ تھا یا تارا کیا جانے

ادا جعفری

;

دیپ تھا یا تارا کیا جانے
دل میں کیوں ڈوبا کیا جانے

گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے
البیلا جھونکا کیا جانے

آس کی میلی چادر اوڑھے
وہ بھی تھا مجھ سا کیا جانے

ریت بھی اپنی رت بھی اپنی
دل رسم دنیا کیا جانے

انگلی تھام کے چلنے والا
نگری کا رستا کیا جانے

کتنے موڑ ابھی باقی ہیں
تم جانو سایا کیا جانے

کون کھلونا ٹوٹ گیا ہے
بالک بے پروا کیا جانے

ممتا اوٹ دہکتے سورج
آنکھوں کا تارا کیا جانے