یہی نہیں کہ زخم جاں کو چارہ جو ملا نہیں
یہ حال تھا کہ دل کو اسم آرزو ملا نہیں
ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے
وہ رہ گزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں
تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا
کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں
وہ جیسے اک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا
رفاقتیں تھیں اور یوں کہ روبرو ملا نہیں
تمام آئنوں میں عکس تھے مری نگاہ کے
بھرے نگر میں ایک بھی مجھے عدو ملا نہیں
وراثتوں کے ہاتھ میں جو اک کتاب تھی ملی
کتاب میں جو حرف ہے ستارہ خو ملا نہیں
وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں
غزل
یہی نہیں کہ زخم جاں کو چارہ جو ملا نہیں
ادا جعفری