یہ اک اور ہم نے قرینہ کیا
در یار تک دل کو زینہ کیا
بدل دی ہے سب صورت آب و خاک
مگر جب لہو کو پسینہ کیا
وہ کشتی سے دیتے تھے منظر کی داد
سو ہم نے بھی گھر کو سفینہ کیا
کہاں ہم تک آیا کوئی راز جو
کہاں ہم نے دل کو دفینہ کیا
فقیروں کا یہ بھی طلسمات ہے
لہو رنگ کو آبگینہ کیا
چمکنے لگا پھر غم رائگاں
مگر ایک جب زخم و سینہ کیا
غزل
یہ اک اور ہم نے قرینہ کیا
ابو الحسنات حقی