EN हिंदी
شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا | شیح شیری
shikast-e-ahd par is ke siwa bahana bhi kya

غزل

شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا

ابو الحسنات حقی

;

شکست عہد پر اس کے سوا بہانہ بھی کیا
کہ اس کا کوئی نہیں تھا مرا ٹھکانہ بھی کیا

یہ سچ ہے اس سے بچھڑ کر مجھے زمانہ ہوا
مگر وہ لوٹنا چاہے تو پھر زمانہ بھی کیا

میں ہر طرف ہوں وہ آئے شکار کر لے مجھے
جہاں ہدف ہی ہدف ہو تو پھر نشانہ بھی کیا

وہ چاہتا ہے سلیقے سے بات کرنے لگوں
جو اتنی سچ ہو بنے گی بھلا فسانہ بھی کیا

اسی روش پر چلو زندگی گزار آئیں
سوائے اس کے کریں حرف کو بہانہ بھی کیا

جو لفظ بھولنا چاہوں وہ یاد آتا ہے
مری سزا کے لیے اور تازیانہ بھی کیا

اب اس گلی میں ہے کیا انتظام کے لائق
تو پھر رسالۂ دل کو کریں روانہ بھی کیا

فراز ماہ بھی پہنائیاں بھی روشن ہیں
چراغ جلتا ہے کوئی تہہ خزانہ بھی کیا

جہاں بھی جاؤں وہی انتظار کی صورت
وہ مجھ کو چاہے مگر اتنا والہانہ بھی کیا

مرا وجود نہیں خانقاہ سے باہر
مگر فشار غزل میں یہ صوفیانہ بھی کیا