اور عشرت کی تمنا کیا کریں
سامنے تو ہو تجھے دیکھا کریں
محو ہو جائیں تصور میں ترے
ہم بھی اپنے قطرے کو دریا کریں
ہم کو ہے ہر روز ہر وقت انتظار
بندہ پرور گاہ گاہ آیا کریں
چارہ گر کا چاہیئے کرنا علاج
اس کو بھی اپنا سا دیوانہ کریں
ان کے آنے کا بھروسا ہو نہ ہو
راہ ہم ان کی مگر دیکھا کریں
ہم نہیں ناواقف رسم ادب
دل کی بیتابی کو وحشتؔ کیا کریں
غزل
اور عشرت کی تمنا کیا کریں
وحشتؔ رضا علی کلکتوی