نہیں کہ عشق نہیں ہے گل و سمن سے مجھے
دل فسردہ لیے جاتا ہے چمن سے مجھے
مثال شمع ہے رونا بھی اور جلنا بھی
یہی تو فائدہ ہے تیری انجمن سے مجھے
بڑھی ہے یاس سے کچھ ایسی وحشت خاطر
نکال کر ہی رہے گی یہ اب وطن سے مجھے
عزیز اگر نہیں رکھتا نہ رکھ ذلیل ہی رکھ
مگر نکال نہ تو اپنی انجمن سے مجھے
وطن سمجھنے لگا ہوں میں دشت غربت کو
زمانہ ہو گیا نکلے ہوئے وطن سے مجھے
مرے بھی داغ جگر مثل لالہ ہیں رنگیں
ہے چشمک اس گل خوبی کے بانکپن سے مجھے
چھپا نہ گوشہ نشینی سے راز دل وحشتؔ
کہ جانتا ہے زمانہ مرے سخن سے مجھے
غزل
نہیں کہ عشق نہیں ہے گل و سمن سے مجھے
وحشتؔ رضا علی کلکتوی