EN हिंदी
سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ | شیح شیری
surur-afza hui aaKHir sharab aahista aahista

غزل

سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

;

سرور افزا ہوئی آخر شراب آہستہ آہستہ
ہوا وہ بزم مے میں بے حجاب آہستہ آہستہ

رخ روشن سے یوں اٹھی نقاب آہستہ آہستہ
کہ جیسے ہو طلوع آفتاب آہستہ آہستہ

کیا جب شوق نے اس سے خطاب آہستہ آہستہ
حیا نے بھی دیا آخر جواب آہستہ آہستہ

وہ مستی خیز نظریں رفتہ رفتہ لے اڑیں مجھ کو
کیا کاشانۂ دل کو خراب آہستہ آہستہ

بڑھا ہنگامۂ شوق اس قدر بزم حریفاں میں
کہ رخصت ہو گیا اس کا حجاب آہستہ آہستہ

کیا کامل ہمیں اک عمر میں سوز محبت نے
ہوئے ہم آتش غم سے کباب آہستہ آہستہ

عبث تھا ضبط کا دعویٰ ستم اس کے ستم نکلے
نگاہیں ہو گئیں آخر پر آب آہستہ آہستہ

دبستان وفا میں عمر بھر کی صفحہ گردانی
سمجھ میں آئی الفت کی کتاب آہستہ آہستہ

بقدر شوق اسے تاب طپیدہ تھی کہاں قاتل
کیا بسمل نے تیرے اضطراب آہستہ آہستہ

بلا ہیں شاہدان شہر وحشتؔ مے پرستی میں
ہوا میں ان کی صحبت میں خراب آہستہ آہستہ