تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا
ترکیب دل نے درد کو درماں بنا دیا
صد شکر آج ہو گئی تکمیل عشق کی
اپنے کو خاک کوچۂ جاناں بنا دیا
کوتاہی کوئی دست جنوں سے نہیں ہوئی
دامن کو ہم کنار گریباں بنا دیا
چھوڑی ہے جب سے میں نے سلامت روی کی چال
دشواریوں کو راہ کی آساں بنا دیا
اے مشعل امید یہ احسان کم نہیں
تاریک شب کو تو نے درخشاں بنا دیا
حسن آفریں ہوا ہے تصور جمال کا
دل کو ہوائے گل نے گلستاں بنا دیا
زہد اور اتقا پہ مجھے اپنے ناز تھا
خود میں نے تجھ کو دشمن ایماں بنا دیا
آئینۂ جمال کو دیکھوں گا کس طرح
اس نے تو پہلے ہی مجھے حیراں بنا دیا
وہ امتیاز حسن ہے معنی و لفظ کا
وحشتؔ کو جس نے غالبؔ دوراں بنا دیا
غزل
تیر نظر نے ظلم کو احساں بنا دیا
وحشتؔ رضا علی کلکتوی