EN हिंदी
مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے | شیح شیری
mera KHurshid-ru sab mah-ruyan bich yakka hai

غزل

مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے

تاباں عبد الحی

;

مرا خورشید رو سب ماہ رویاں بیچ یکا ہے
کہ ہر جلوے میں اس کے کیا کہوں اور ہی جھمکا ہے

نہیں ہونے کا چنگا گر سلیمانی لگے مرہم
ہمارے دل پہ کاری زخم اس ناوک پلک کا ہے

کئی باری بنا ہو جس کی پھر کہتے ہیں ٹوٹے گا
یہ حرمت جس کی ہو اے شیخ کیا تیرا وہ مکا ہے

ہر اک دل کے تئیں لے کر وہ چنچل بھاگ جاتا ہے
ستم گر ہے جفا جو ہے شرابی ہے اچکا ہے

نہ جا واعظ کی باتوں پر ہمیشہ مے کو پی تاباںؔ
عبث ڈرتا ہے تو دوزخ سے اک شرعی درکا ہے