عیش سب خوش آتے ہیں جب تلک جوانی ہے
مردہ دل وہ ہوتا ہے جو کہ شیح فانی ہے
جب تلک رہے جیتا چاہئے ہنسے بولے
آدمی کو چپ رہنا موت کی نشانی ہے
جو کہ تیرا عاشق ہے اس کا اے گل رعنا
رنگ زعفرانی ہے اشک ارغوانی ہے
آہ کی نہیں طاقت تاب نہیں ہے نالے کی
ہجر میں ترے ظالم کیا ہی ناتوانی ہے
چار دن کی عشرت پر دل لگا نہ دنیا سے
کہتے ہیں کہ جنت میں عیش جاودانی ہے
گل رخاں کا آب و رنگ دیکھنے سے میرے ہے
حسن کی گلستاں کی مجھ کو باغبانی ہے
دل سے کیوں نہیں چاہوں یار کو کہ اے تاباںؔ
دل ربا ہے پیارا ہے جیوڑا ہے جانی ہے
غزل
عیش سب خوش آتے ہیں جب تلک جوانی ہے
تاباں عبد الحی