دیکھ اس کو خواب میں جب آنکھ کھل جاتی ہے صبح
کیا کہوں میں کیا قیامت مجھ پہ تب لاتی ہے صبح
شمع جب مجلس سے مہروؤں کی لیتی ہے اٹھا
کیا کہوں کیا کیا سنیں اس وقت دکھلاتی ہے صبح
جس کا گورا رنگ ہو وہ رات کو کھلتا ہے خوب
روشنائی شمع کی پھیکی نظر آتی ہے صبح
پاس تو سوتا ہے چنچل پر گلے لگتا نہیں
منتیں کرتے ہی ساری رات ہو جاتی ہے صبح
نیند سے اٹھتا ہے تاباںؔ جب مرا خورشید رو
دیکھ اس کے منہ کے تئیں شرما کے چھپ جاتی ہے صبح
غزل
دیکھ اس کو خواب میں جب آنکھ کھل جاتی ہے صبح
تاباں عبد الحی