EN हिंदी
غم میں روتا ہوں ترے صبح کہیں شام کہیں | شیح شیری
gham mein rota hun tere subh kahin sham kahin

غزل

غم میں روتا ہوں ترے صبح کہیں شام کہیں

تاباں عبد الحی

;

غم میں روتا ہوں ترے صبح کہیں شام کہیں
چاہنے والے کو ہوتا بھی ہے آرام کہیں

وصل ہو وصل الٰہی کہ مجھے تاب نہیں
دور ہوں دور مرے ہجر کے ایام کہیں

لگ رہی ہیں ترے عاشق کی جو آنکھیں چھت سے
تج کو دیکھا تھا مگر ان نے لب بام کہیں

عاشقوں کے بھی لڑانے کی تجھے کیا ڈھب ہے
چشم بازی ہے کہیں بوسہ و پیغام کہیں

یمنی کی سی طرح لخت جگر پر کھودوں
مج کو معلوم اگر ہووے ترا نام کہیں

ہجر میں اس بت کافر کے تڑپتے ہیں پڑے
اہل زنار کہیں صاحب اسلام کہیں

آرزو ہے مرے تاباںؔ کو بھی اب اے قاتل
کہ بر آئے ترے ہاتھوں سے مرا کام کہیں