EN हिंदी
جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر | شیح شیری
jab chala wo mujhko bismil KHun mein ghaltan chhoD kar

غزل

جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر

شیخ ابراہیم ذوقؔ

;

جب چلا وہ مجھ کو بسمل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتل کا داماں چھوڑ کر

میں وہ مجنوں ہوں جو نکلوں کنج زنداں چھوڑ کر
سیب جنت تک نہ کھاؤں سنگ طفلاں چھوڑ کر

پیوے میرا ہی لہو مانی جو لب اس شوخ کے
کھینچے تو شنگرف سے خون شہیداں چھوڑ کر

میں ہوں وہ گمنام جب دفتر میں نام آیا مرا
رہ گیا بس منشی قدرت جگہ واں چھوڑ کر

سایۂ سرو چمن تجھ بن ڈراتا ہے مجھے
سانپ سا پانی میں اے سرو خراماں چھوڑ کر

ہو گیا طفلی ہی سے دل میں ترازو تیر عشق
بھاگے ہیں مکتب سے ہم اوراق میزاں چھوڑ کر

اہل جوہر کو وطن میں رہنے دیتا گر فلک
لعل کیوں اس رنگ سے آتا بدخشاں چھوڑ کر

شوق ہے اس کو بھی طرز نالۂ عشاق سے
دم بدم چھیڑے ہے منہ سے دود قلیاں چھوڑ کر

دل تو لگتے ہی لگے گا حوریان عدن سے
باغ ہستی سے چلا ہوں ہائے پریاں چھوڑ کر

گھر سے بھی واقف نہیں اس کے کہ جس کے واسطے
بیٹھے ہیں گھر بار ہم سب خانہ ویراں چھوڑ کر

وصل میں گر ہووے مجھ کو رویت ماہ رجب
روئے جاناں ہی کو دیکھوں میں تو قرآں چھوڑ کر

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر