بینائی بھی کیا کیا دھوکے دیتی ہے
دور سے دیکھو سارے دریا نیلے ہیں
شارق کیفی
آؤ گلے مل کر یہ دیکھیں
اب ہم میں کتنی دوری ہے
شارق کیفی
بہت ہمت کا ہے یہ کام شارقؔ
کہ شرماتے نہیں ڈرتے ہوئے ہم
شارق کیفی
بہت حسیں رات ہے مگر تم تو سو رہے ہو
نکل کے کمرے سے اک نظر چاندنی تو دیکھو
شارق کیفی
بہت گدلا تھا پانی اس ندی کا
مگر میں اپنا چہرہ دیکھ آیا
شارق کیفی
بہت بھٹکے تو ہم سمجھے ہیں یہ بات
برا ایسا نہیں اپنا مکاں بھی
شارق کیفی
عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں
مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے
شارق کیفی
اچانک ہڑبڑا کر نیند سے میں جاگ اٹھا ہوں
پرانا واقعہ ہے جس پہ حیرت اب ہوئی ہے
شارق کیفی
ابھی تو اچھی لگے گی کچھ دن جدائی کی رت
ابھی ہمارے لیے یہ سب کچھ نیا نیا ہے
شارق کیفی