EN हिंदी
شارق کیفی شیاری | شیح شیری

شارق کیفی شیر

49 شیر

سب آسان ہوا جاتا ہے
مشکل وقت تو اب آیا ہے

شارق کیفی




شاید اسے ضرورت ہو اب پردے کی
روشنیاں گھر کی مدھم کر جاؤں میں

شارق کیفی




تسلی اب ہوئی کچھ دل کو میرے
تری گلیوں کو سونا دیکھ آیا

شارق کیفی




عمر بھر کس نے بھلا غور سے دیکھا تھا مجھے
وقت کم ہو تو سجا دیتی ہے بیماری بھی

شارق کیفی




وہ بات سوچ کے میں جس کو مدتوں جیتا
بچھڑتے وقت بتانے کی کیا ضرورت تھی

شارق کیفی




وہ بستی ناخداؤں کی تھی لیکن
ملے کچھ ڈوبنے والے وہاں بھی

شارق کیفی




یہی کمرہ تھا جس میں چین سے ہم جی رہے تھے
یہ تنہائی تو اتنی بے مروت اب ہوئی ہے

شارق کیفی




فاصلہ رکھ کے بھی کیا حاصل ہوا
آج بھی اس کا ہی کہلاتا ہوں میں

شارق کیفی




اب مجھے کون جیت سکتا ہے
تو مرے دل کا آخری ڈر تھا

شارق کیفی