خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے
اشاروں کو ترے پڑھنے کی جرأت اب ہوئی ہے
عجب لہجے میں کرتے تھے در و دیوار باتیں
مرے گھر کو بھی شاید میری عادت اب ہوئی ہے
گماں ہوں یا حقیقت سوچنے کا وقت کب تک
یہ ہو کر بھی نہ ہونے کی مصیبت اب ہوئی ہے
اچانک ہڑبڑا کر نیند سے میں جاگ اٹھا ہوں
پرانا واقعہ ہے جس پہ حیرت اب ہوئی ہے
یہی کمرہ تھا جس میں چین سے ہم جی رہے تھے
یہ تنہائی تو اتنی بے مروت اب ہوئی ہے
بچھڑنا ہے ہمیں اک دن یہ دونوں جانتے تھے
فقط ہم کو جدا ہونے کی فرصت اب ہوئی ہے
عجب تھا مسئلہ اپنا عجب شرمندگی تھی
خفا جس رات پر تھے وہ شرارت اب ہوئی ہے
محبت کو تری کب سے لیے بیٹھے تھے دل میں
مگر اس بات کو کہنے کی ہمت اب ہوئی ہے
غزل
خموشی بس خموشی تھی اجازت اب ہوئی ہے
شارق کیفی