بھیڑ میں جب تک رہتے ہیں جوشیلے ہیں
الگ الگ ہم لوگ بہت شرمیلے ہیں
خواب کے بدلے خون چکانا پڑتا ہے
آنکھوں کے یہ کھیل بڑے خرچیلے ہیں
بینائی بھی کیا کیا دھوکے دیتی ہے
دور سے دیکھو سارے دریا نیلے ہیں
صحرا میں بھی گاؤں کا دریا ساتھ رہا
دیکھو میرے پاؤں ابھی تک گیلے ہیں
غزل
بھیڑ میں جب تک رہتے ہیں جوشیلے ہیں
شارق کیفی