جو کہتا ہے کہ دریا دیکھ آیا
غلط موسم میں صحرا دیکھ آیا
ڈگر اور منزلیں تو ایک سی تھیں
وہ پھر مجھ سے جدا کیا دیکھ آیا
ہر اک منظر کے پس منظر تھے اتنے
بہت کچھ بے ارادہ دیکھ آیا
کسی کو خاک دے کر آ رہا ہوں
زمیں کا اصل چہرہ دیکھ آیا
رکا محفل میں اتنی دیر تک میں
اجالوں کا بڑھاپا دیکھ آیا
تسلی اب ہوئی کچھ دل کو میرے
تری گلیوں کو سونا دیکھ آیا
تماشائی میں جاں اٹکی ہوئی تھی
پلٹ کر پھر کنارہ دیکھ آیا
بہت گدلا تھا پانی اس ندی کا
مگر میں اپنا چہرہ دیکھ آیا
میں اس حیرت میں شامل ہوں تو کیسے
نہ جانے وہ کہاں کیا دیکھ آیا
وہ منظر دائمی اتنا حسیں تھا
کہ میں ہی کچھ زیادہ دیکھ آیا
غزل
جو کہتا ہے کہ دریا دیکھ آیا
شارق کیفی