ایک دن ہم اچانک بڑے ہو گئے
کھیل میں دوڑ کر اس کو چھوتے ہوئے
شارق کیفی
آؤ گلے مل کر یہ دیکھیں
اب ہم میں کتنی دوری ہے
شارق کیفی
فیصلے اوروں کے کرتا ہوں
اپنی سزا کٹتی رہتی ہے
شارق کیفی
گفتگو کر کے پریشاں ہوں کہ لہجے میں ترے
وہ کھلا پن ہے کہ دیوار ہوا جاتا ہے
شارق کیفی
ہیں اب اس فکر میں ڈوبے ہوئے ہم
اسے کیسے لگے روتے ہوئے ہم
شارق کیفی
ہو سبب کچھ بھی مرے آنکھ بچانے کا مگر
صاف کر دوں کہ نظر کم نہیں آتا ہے مجھے
شارق کیفی
جیسے یہ میز مٹی کا ہاتھی یہ پھول
ایک کونے میں ہم بھی ہیں رکھے ہوئے
شارق کیفی
جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا
دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا
شارق کیفی
جن پر میں تھوڑا سا بھی آسان ہوا ہوں
وہی بتا سکتے ہیں کتنا مشکل تھا میں
شارق کیفی