EN हिंदी
نہیں روک سکو گے جسم کی ان پروازوں کو | شیح شیری
nahin rok sakoge jism ki in parwazon ko

غزل

نہیں روک سکو گے جسم کی ان پروازوں کو

شہریار

;

نہیں روک سکو گے جسم کی ان پروازوں کو
بڑی بھول ہوئی جو چھیڑ دیا کئی سازوں کو

کوئی نیا مکین نہیں آیا تو حیرت کیا
کبھی تم نے کھلا چھوڑا ہی نہیں دروازوں کو

کبھی پار بھی کر پائیں گی سکوت کے صحرا کو
درپیش ہے کتنا اور سفر آوازوں کو

مجھے کچھ لوگوں کی رسوائی منظور نہیں
نہیں عام کیا جو میں نے اپنے رازوں کو

کہیں ہو نہ گئی ہو زمین پرندوں سے خالی
کھلے آسمان پر دیکھتا ہوں پھر بازوں کو