نہیں روک سکو گے جسم کی ان پروازوں کو
بڑی بھول ہوئی جو چھیڑ دیا کئی سازوں کو
کوئی نیا مکین نہیں آیا تو حیرت کیا
کبھی تم نے کھلا چھوڑا ہی نہیں دروازوں کو
کبھی پار بھی کر پائیں گی سکوت کے صحرا کو
درپیش ہے کتنا اور سفر آوازوں کو
مجھے کچھ لوگوں کی رسوائی منظور نہیں
نہیں عام کیا جو میں نے اپنے رازوں کو
کہیں ہو نہ گئی ہو زمین پرندوں سے خالی
کھلے آسمان پر دیکھتا ہوں پھر بازوں کو
غزل
نہیں روک سکو گے جسم کی ان پروازوں کو
شہریار