کہنے کو تو ہر بات کہی تیرے مقابل
لیکن وہ فسانہ جو مرے دل پہ رقم ہے
محرومی کا احساس مجھے کس لیے ہوتا
حاصل ہے جو مجھ کو کہاں دنیا کو بہم ہے
یا تجھ سے بچھڑنے کا نہیں حوصلہ مجھ میں
یا تیرے تغافل میں بھی انداز کرم ہے
تھوڑی سی جگہ مجھ کو بھی مل جائے کہیں پر
وحشت ترے کوچے میں مرے شہر سے کم ہے
اے ہم سفرو ٹوٹے نہ سانسوں کا تسلسل
یہ قافلۂ شوق بہت تیز قدم ہے
غزل
کہنے کو تو ہر بات کہی تیرے مقابل (ردیف .. ے)
شہریار