واں کمر باندھے ہیں مژگاں قتل پر دونوں طرف
یاں صف عشاق ہیں زیر و زبر دونوں طرف
زلف کا سربستہ کوچہ مانگ کا رستہ ہے تنگ
دل تری شامت ہے مت جا بے خطر دونوں طرف
دیر و کعبہ میں تفاوت خلق کے نزدیک ہے
شاہد معنی کا ہر صورت ہے گھر دونوں طرف
ہے وہ دریا میں نہاتا میں ہوں غرق آب شرم
کچھ عجب اک ماجرا ہے طرفہ تر دونوں طرف
عشق وہ ہے جس کے ہاتھوں قمری و بلبل کے آہ
زیر سرو و گل پڑے ہیں بال و پر دونوں طرف
چشم میں کیا نور ہے دل میں بھی اس کا ہے ظہور
ظاہر و باطن وہی ہے جلوہ گر دونوں طرف
آمد و شد میں ہے دیکھی سیر بستی و عدم
ہم کو اس مہماں سرا میں ہے سفر دونوں طرف
شمع کچھ جلتی نہیں پروانہ بھی دیتا ہے جی
سوزش الفت سے ہے جی کا ضرر دونوں طرف
پنجۂ مژگاں پہ رکھوں کیوں نہ میں دل اور جگر
نذر کو لایا ہوں تیری کر نظر دونوں طرف
دل میں گر آتا ہے تو آ جان من آنکھوں کی راہ
اس مکان دل کشا کے ہیں یہ در دونوں طرف
کچھ حباب و بحر میں مت فرق سمجھو اے نصیرؔ
دیکھو ٹک چشم حقیقت کھول کر دونوں طرف
غزل
واں کمر باندھے ہیں مژگاں قتل پر دونوں طرف
شاہ نصیر