بے سبب ہاتھ کٹاری کو لگانا کیا تھا
قتل عشاق پہ بیڑا یہ اٹھانا کیا تھا
سر پہ اپنے تو نہ لے خون اب اک عالم کا
فندق ہائے نگاریں کو دکھانا کیا تھا
سر بلندی کو یہاں دل نے نہ چاہا منعم
ورنہ یہ خیمۂ افلاک پرانا کیا تھا
اس لئے چین جبیں موج رہے ہے ہر دم
اے حباب لب جو آنکھ چرانا کیا تھا
ساقیا اپنی بلا سے جو گھٹا اٹھی ہے
دے کے اک جرعۂ مے دل کو گھٹانا کیا تھا
سرزمیں زلف کی جاگیر میں تھی اس دل کی
ورنہ اک دام کا پھر اس میں ٹھکانا کیا تھا
کہہ غزل دوسری اس بحر میں ایک اور نصیرؔ
یک قلم لکھنے سے اب ہاتھ اٹھانا کیا تھا
غزل
بے سبب ہاتھ کٹاری کو لگانا کیا تھا
شاہ نصیر