نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا
دکھا کے دست حنائی نہ خوں بہا دل کا
کہ اور رنگ سے لوں گا میں خوں بہا دل کا
میں طفل اشک کو مژگاں پہ دیکھ حیراں ہوں
کہ نور دیدہ ہے یا ہے بالکا دل کا
تو آئنے پہ نہ اپنے کر اے سکندر ناز
کہ ہم بھی رکھتے ہیں جام جہاں نما دل کا
بہشت پہنچے ہے زاہد! کب اس کی وسعت کو
عجب روش کا ہے یہ باغ دل کشا دل کا
بجا ہوں سر بہ گریباں کہ اس کے دامن تک
نہ پہنچا آہ کبھی دست نارسا دل کا
ترے خدنگ مژہ سے ہے یک قلم مجروح
نہ پوچھ اے بت بدکیشں! ماجرا دل کا
لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر
سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا
ہزار بین کہیں کیوں نہ اہل بینائی
کہ صاف بو قلموں ہے یہ آئنا دل کا
بہار تجھ کو دکھائیں گے ہم بھی اے گل رو
کسی روش سے جو غنچہ کبھی کھلا دل کا
ظہور جلوۂ معبود ہے بہر صورت
رکھا ہے نام بجا خانۂ خدا دل کا
رواق چشم میں مت رہ کہ ہے مکان نزول
ترے تو واسطے یہ قصر ہے بنا دل کا
قرار و طاقت و صبر و خرد ہوئے سب گم
تمہاری زلف میں ابتر ہے حال کیا دل کا
کہیں گے ہم یہ سراسر جو کوئی پوچھے گا
سواد ہند میں لوٹا ہے قافلہ دل کا
نہ کیونکہ آہ سے خاطر نشاں ہو اب میری
کہ تیر یہ نہیں کرتا کبھی خطا دل کا
ہمارے داغ سے بھونرے کو کیا بھلا نسبت
کہ وہ رفیق ہے گل کا یہ آشنا دل کا
لگا نہ دل کو تو اپنے کسی سے دیکھ نصیرؔ
برا نہ مان کہ اس میں نہیں بھلا دل کا
غزل
نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
شاہ نصیر