خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجے
کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے
ثروت حسین
آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر در و بام
یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر
ثروت حسین
اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام
وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی
ثروت حسین
حسن بہار مجھ کو مکمل نہیں لگا
میں نے تراش لی ہے خزاں اپنے ہاتھ سے
ثروت حسین
دو ہی چیزیں اس دھرتی میں دیکھنے والی ہیں
مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو
ثروت حسین
دشت چھوڑا تو کیا ملا ثروتؔ
گھر بدلنے کے بعد کیا ہوگا
ثروت حسین
بجھی روح کی پیاس لیکن سخی
مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے
ثروت حسین
بہت مصر تھے خدایان ثابت و سیار
سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کیے
ثروت حسین
اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ
اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا
ثروت حسین