پہنائے بر و بحر کے محشر سے نکل کر
دیکھوں کبھی موجود و میسر سے نکل کر
آئے کوئی طوفان گزر جائے کوئی سیل
اک شعلۂ بے تاب ہوں پتھر سے نکل کر
آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر در و بام
یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر
تا دیر رہا ذائقۂ مرگ لبوں پر
اک نیند کے ٹوٹے ہوئے منظر سے نکل کر
ہر رنگ میں اثبات سفر چاہئے ثروتؔ
مٹی پہ دھرو پاؤں سمندر سے نکل کر
غزل
پہنائے بر و بحر کے محشر سے نکل کر
ثروت حسین