تھامی ہوئی ہے کاہکشاں اپنے ہاتھ سے
تعمیر کر رہا ہوں مکاں اپنے ہاتھ سے
آیا ہوں وہ زمین و شجر ڈھونڈتا ہوا
کھینچی تھی اک لکیر جہاں اپنے ہاتھ سے
حسن بہار مجھ کو مکمل نہیں لگا
میں نے تراش لی ہے خزاں اپنے ہاتھ سے
آئینے کا حضور سمندر لگا مجھے
کاٹا ہے میں نے سیل گراں اپنے ہاتھ سے
ثروتؔ ہدف بہت ہیں جوانان شہر میں
رکھو ابھی نہ تیر و کماں اپنے ہاتھ سے
غزل
تھامی ہوئی ہے کاہکشاں اپنے ہاتھ سے
ثروت حسین