اچھا سا کوئی سپنا دیکھو اور مجھے دیکھو
جاگو تو آئینہ دیکھو اور مجھے دیکھو
سوچو یہ خاموش مسافر کیوں افسردہ ہے
جب بھی تم دروازہ دیکھو اور مجھے دیکھو
صبح کے ٹھنڈے فرش پہ گونجا اس کا ایک سخن
کرنوں کا گلدستہ دیکھو اور مجھے دیکھو
بازو ہیں یا دو پتواریں ناؤ پہ رکھی ہیں
لہریں لیتا دریا دیکھو اور مجھے دیکھو
دو ہی چیزیں اس دھرتی میں دیکھنے والی ہیں
مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو
غزل
اچھا سا کوئی سپنا دیکھو اور مجھے دیکھو
ثروت حسین