گھر سے نکلا تو ملاقات ہوئی پانی سے
کہاں ملتی ہے خوشی اتنی فراوانی سے
خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجئے
کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے
سامنے اور ہی دیوار و شجر پاتا ہوں
جاگ اٹھتا ہوں اگر خواب جہاں بانی سے
عمر کا کوہ گراں اور شب و روز مرے
یہ وہ پتھر ہے جو کٹتا نہیں آسانی سے
شام تھی اور شفق پھوٹ رہی تھی ثروتؔ
ایک رقاصہ کی جلتی ہوئی پیشانی سے

غزل
گھر سے نکلا تو ملاقات ہوئی پانی سے
ثروت حسین