دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی
اک آگ تھی جو میرے پیالے میں بھر گئی
ان راستوں میں نام و نسب کا نشاں نہ تھا
ہنگامۂ بہار میں خلقت جدھر گئی
اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام
وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی
اتنا قریب پا کے اسے دم بخود تھا میں
ایسا لگا زمین کی گردش ٹھہر گئی
غزل
دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی
ثروت حسین