EN हिंदी
دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی | شیح شیری
dekha jo us taraf to badan par nazar gai

غزل

دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی

ثروت حسین

;

دیکھا جو اس طرف تو بدن پر نظر گئی
اک آگ تھی جو میرے پیالے میں بھر گئی

ان راستوں میں نام و نسب کا نشاں نہ تھا
ہنگامۂ بہار میں خلقت جدھر گئی

اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام
وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی

اتنا قریب پا کے اسے دم بخود تھا میں
ایسا لگا زمین کی گردش ٹھہر گئی