موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں
ثروت حسین
میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں
اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا
ثروت حسین
میں کتاب خاک کھولوں تو کھلے
کیا نہیں موجود کیا موجود ہے
ثروت حسین
میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے
بلا کا رنگ تھا رنگینیٔ قبا سے ادھر
ثروت حسین
لے آئے گا اک روز گل و برگ بھی ثروتؔ
باراں کا مسلسل خس و خاشاک پہ ہونا
ثروت حسین
خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجے
کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے
ثروت حسین
جسے انجام تم سمجھتی ہو
ابتدا ہے کسی کہانی کی
ثروت حسین
اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام
وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی
ثروت حسین
حسن بہار مجھ کو مکمل نہیں لگا
میں نے تراش لی ہے خزاں اپنے ہاتھ سے
ثروت حسین