کتاب سبز و در داستان بند کیے
وہ آنکھ سو گئی خوابوں کو ارجمند کیے
گزر گیا ہے وہ سیلاب آتش امروز
بغیر خیمہ و خاشاک کو گزند کیے
بہت مصر تھے خدایان ثابت و سیار
سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کیے
اسی جزیرۂ جائے نماز پر ثروتؔ
زمانہ ہو گیا دست دعا بلند کیے
غزل
کتاب سبز و در داستان بند کیے
ثروت حسین