وہیں پر مرا سیم تن بھی تو ہے
اسی راستے میں وطن بھی تو ہے
بجھی روح کی پیاس لیکن سخی
مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے
نہیں شام تیرہ سے مایوس میں
بیاباں کے پیچھے چمن بھی تو ہے
مشقت بھرے دن کے آخیر پر
ستاروں بھری انجمن بھی تو ہے
مہکتی دہکتی لہکتی ہوئی
یہ تنہائی باغ عدن بھی تو ہے
غزل
وہیں پر مرا سیم تن بھی تو ہے
ثروت حسین