لوگ تھے جن کی آنکھوں میں اندیشہ کوئی نہ تھا
میں جس شہر سے گزرا اس میں زندہ کوئی نہ تھا
چیزوں کے انبار لگے تھے خلق آرام سے تھی
اور مجھے یہ رنج وہاں افسردہ کوئی نہ تھا
حیرانی میں ہوں آخر کس کی پرچھائیں ہوں
وہ بھی دھیان میں آیا جس کا سایہ کوئی نہ تھا
چونک پڑا جب یادوں میں اس کی آواز سنی
بس اپنی ہی گونج تھی مجھ میں ورنہ کوئی نہ تھا
میں جس خوف میں تھا اس میں کچھ اور بھی قیدی تھے
میں جس خواب میں تھا اس میں دروازہ کوئی نہ تھا
غزل
لوگ تھے جن کی آنکھوں میں اندیشہ کوئی نہ تھا
ساقی فاروقی