اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے
تو اپنے گہن میں ہے تو میں اپنے گہن میں
دو چاند ہیں اک ابر میں گہ بھی نہیں سکتے
ہم جسم ہیں اور دونوں کی بنیادیں امر ہیں
اب کیسے بچھڑ جائیں کہ ڈھہ بھی نہیں سکتے
دریا ہوں کسی روز معاون کی طرح مل
یہ کیا کہ ہم اک لہر میں بہہ بھی نہیں سکتے
خواب آئیں کہاں سے اگر آنکھیں ہوں پرانی
اور صبح تک اس خوف میں رہ بھی نہیں سکتے
غزل
اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
ساقی فاروقی