EN हिंदी
اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے | شیح شیری
ek yaad ki maujudgi sah bhi nahin sakte

غزل

اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے

ساقی فاروقی

;

اک یاد کی موجودگی سہہ بھی نہیں سکتے
یہ بات کسی اور سے کہہ بھی نہیں سکتے

تو اپنے گہن میں ہے تو میں اپنے گہن میں
دو چاند ہیں اک ابر میں گہ بھی نہیں سکتے

ہم جسم ہیں اور دونوں کی بنیادیں امر ہیں
اب کیسے بچھڑ جائیں کہ ڈھہ بھی نہیں سکتے

دریا ہوں کسی روز معاون کی طرح مل
یہ کیا کہ ہم اک لہر میں بہہ بھی نہیں سکتے

خواب آئیں کہاں سے اگر آنکھیں ہوں پرانی
اور صبح تک اس خوف میں رہ بھی نہیں سکتے