خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
یہ جدائی ہے کہ نسیاں کا جہنم کوئی
راکھ ہو جائے نہ یادوں کا ذخیرہ اپنا
ان ہواؤں میں یہ سسکی کی صدا کیسی ہے
بین کرتا ہے کوئی درد پرانا اپنا
آگ کی طرح رہے آگ سے منسوب رہے
جب اسے چھوڑ دیا خاک تھا شعلہ اپنا
ہم اسے بھول گئے تو بھی نہ پوچھا اس نے
ہم سے کافر سے بھی جزیہ نہیں مانگا اپنا
یہ نیا دکھ کہ محبت سے ہوئے ہیں سیراب
پیاس کے بوجھ سے ڈوبا نہ سفینہ اپنا
غزل
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ساقی فاروقی