یوں مرے پاس سے ہو کر نہ گزر جانا تھا
بول اے شخص تجھے کون نگر جانا تھا
روح اور جسم جہنم کی طرح جلتے ہیں
اس سے روٹھے تھے تو اس آگ کو مر جانا تھا
راہ میں چھاؤں ملی تھی کہ ٹھہر سکتے تھے
اس سہارے کو مگر ننگ سفر جانا تھا
خواب ٹوٹے تھے کہ آنکھوں میں ستارے ناچے
سب کو دامن کے اندھیرے میں اتر جانا تھا
حادثہ یہ ہے کہ ہم جاں نہ معطر کر پائے
وہ تو خوش بو تھا اسے یوں بھی بکھر جانا تھا
غزل
یوں مرے پاس سے ہو کر نہ گزر جانا تھا
ساقی فاروقی