چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب اٹھاؤ بڑا اندھیرا ہے
ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے
ابھی فریب نہ کھاؤ بڑا اندھیرا ہے
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انہیں کہیں سے بلاؤ بڑا اندھیرا ہے
مجھے تمہاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں
مرے قریب نہ آؤ بڑا اندھیرا ہے
فراز عرش سے ٹوٹا ہوا کوئی تارہ
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
بصیرتوں پہ اجالوں کا خوف طاری ہے
مجھے یقین دلاؤ بڑا اندھیرا ہے
جسے زبان خرد میں شراب کہتے ہیں
وہ روشنی سی پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
بنام زہرہ جبینان خطۂ فردوس
کسی کرن کو جگاؤ بڑا اندھیرا ہے
غزل
چراغ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی