EN हिंदी
ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام | شیح شیری
ek naghma ek tara ek ghuncha ek jam

غزل

ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام

ساغر صدیقی

;

ایک نغمہ اک تارا ایک غنچہ ایک جام
اے غم دوراں غم دوراں تجھے میرا سلام

زلف آوارہ گریباں چاک گھبرائی نظر
ان دنوں یہ ہے جہاں میں زندگانی کا نظام

چند تارے ٹوٹ کر دامن میں میرے آ گرے
میں نے پوچھا تھا ستاروں سے ترے غم کا مقام

کہہ رہے ہیں چند بچھڑے رہرووں کے نقش پا
ہم کریں گے انقلاب جستجو کا اہتمام

پڑ گئیں پیراہن صبح چمن پر سلوٹیں
یاد آ کر رہ گئی ہے بے خودی کی ایک شام

تیری عصمت ہو کہ ہو میرے ہنر کی چاندنی
وقت کے بازار میں ہر چیز کے لگتے ہیں دام

ہم بنائیں گے یہاں ساغرؔ نئی تصویر شوق
ہم تخیل کے مجدد ہم تصور کے امام