اے کاش خود سکوت بھی مجھ سے ہو ہم کلام
میں خامشی زدہ ہوں صدا چاہیئے مجھے
صابر ظفر
کہتی ہے یہ شام کی نرم ہوا پھر مہکے گی اس گھر کی فضا
نیا کمرہ سجا نئی شمع جلا ترے چاہنے والے اور بھی ہیں
صابر ظفر
کیسے کریں بندگی ظفرؔ واں
بندوں کی جہاں خدائیاں ہیں
صابر ظفر
خزاں کی رت ہے جنم دن ہے اور دھواں اور پھول
ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول
صابر ظفر
کسی خیال کی سرشاری میں جاری و ساری یاری میں
اپنے آپ کوئی آئے گا اور بن جائے گا مہمان
صابر ظفر
کسی زنداں میں سوچنا ہے عبث
دہر ہم میں ہے یا کہ دہر میں ہم
صابر ظفر
کتنی بے سود جدائی ہے کہ دکھ بھی نہ ملا
کوئی دھوکہ ہی وہ دیتا کہ میں پچھتا سکتا
صابر ظفر
کچھ بے ٹھکانہ کرتی رہیں ہجرتیں مدام
کچھ میری وحشتوں نے مجھے در بدر کیا
صابر ظفر
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
صابر ظفر