EN हिंदी
صابر ظفر شیاری | شیح شیری

صابر ظفر شیر

47 شیر

ہر شخص بچھڑ چکا ہے مجھ سے
کیا جانیے کس کو ڈھونڈھتا ہوں

صابر ظفر




اے کاش خود سکوت بھی مجھ سے ہو ہم کلام
میں خامشی زدہ ہوں صدا چاہیئے مجھے

صابر ظفر




ہم اتنا چاہتے تھے ایک دوسرے کو ظفرؔ
میں اس کی اور وہ میری مثال ہو کے رہا

صابر ظفر




گزارتا ہوں جو شب عشق بے معاش کے ساتھ
تو صبح اشک مرے ناشتے پہ گرتے ہیں

صابر ظفر




دور تک ایک خلا ہے سو خلا کے اندر
صرف تنہائی کی صورت ہی نظر آئے گی

صابر ظفر




بے وفا لوگوں میں رہنا تری قسمت ہی سہی
ان میں شامل میں ترا نام نہ ہونے دوں گا

صابر ظفر




بنا ہوا ہے مرا شہر قتل گاہ کوئی
پلٹ کے ماؤں کے لخت جگر نہیں آتے

صابر ظفر




بدن نے چھوڑ دیا روح نے رہا نہ کیا
میں قید ہی میں رہا قید سے نکل کے بھی

صابر ظفر




اپنی یادیں اس سے واپس مانگ کر
میں نے اپنے آپ کو یکجا کیا

صابر ظفر