تنہائی تعمیر کرے گی گھر سے بہتر اک زندان
بام و در نہیں ہوں گے لیکن ہوگا جینے کا سامان
کسی خیال کی سرشاری میں جاری و ساری یاری میں
اپنے آپ کوئی آئے گا اور بن جائے گا مہمان
جیون پیکر دھل جائیں گے جس میں گناہ و ثواب سمیت
آنسو پیدا کر ہی دیں گے ایسی بارش کا امکان
اشکوں کی بوندا باندی میں قوس قزح کے رنگوں سے
اک ایسی تصویر بنی ہے ساری دنیا ہے حیران
حیرانی زنجیر کرے گی ہر پل نئی کہانی کو
اور ظفرؔ سب کرداروں میں اک دن پڑ جائے گی جان
غزل
تنہائی تعمیر کرے گی گھر سے بہتر اک زندان
صابر ظفر