جینے کا درس سب سے جدا چاہیئے مجھے
اب تو نصاب زیست نیا چاہیئے مجھے
اے کاش خود سکوت بھی مجھ سے ہو ہم کلام
میں خامشی زدہ ہوں صدا چاہیئے مجھے
اب میرے پاس جرأت اظہار بھی نہیں
کیسے بتاؤں آپ کو کیا چاہیئے مجھے
سب کھڑکیاں کھلی ہیں مگر حبس ہے بہت
جاں لب پہ آ چکی ہے ہوا چاہیئے مجھے
غزل
جینے کا درس سب سے جدا چاہیئے مجھے
صابر ظفر