EN हिंदी
خزاں کی رت ہے جنم دن ہے اور دھواں اور پھول | شیح شیری
KHizan ki rut hai janam-din hai aur dhuan aur phul

غزل

خزاں کی رت ہے جنم دن ہے اور دھواں اور پھول

صابر ظفر

;

خزاں کی رت ہے جنم دن ہے اور دھواں اور پھول
ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول

وہ لوگ آج خود اک داستاں کا حصہ ہیں
جنہیں عزیز تھے قصے کہانیاں اور پھول

یہ سب ترے مرے اظہار کی علامت ہیں
شفق کے رنگ میں شعلہ، لہو، زباں اور پھول

یقین کر کہ یہی ہے بجھے دلوں کا علاج
تری وفا تری چاہت ترا گماں اور پھول

ظفرؔ میں صورت خوشبو قیام کرتا ہوں
سو ایک سے مجھے لگتے ہیں سب مکاں اور پھول