خزاں کی رت ہے جنم دن ہے اور دھواں اور پھول
ہوا بکھیر گئی موم بتیاں اور پھول
وہ لوگ آج خود اک داستاں کا حصہ ہیں
جنہیں عزیز تھے قصے کہانیاں اور پھول
یہ سب ترے مرے اظہار کی علامت ہیں
شفق کے رنگ میں شعلہ، لہو، زباں اور پھول
یقین کر کہ یہی ہے بجھے دلوں کا علاج
تری وفا تری چاہت ترا گماں اور پھول
ظفرؔ میں صورت خوشبو قیام کرتا ہوں
سو ایک سے مجھے لگتے ہیں سب مکاں اور پھول
غزل
خزاں کی رت ہے جنم دن ہے اور دھواں اور پھول
صابر ظفر