EN हिंदी
صابر ظفر شیاری | شیح شیری

صابر ظفر شیر

47 شیر

وہ لوگ آج خود اک داستاں کا حصہ ہیں
جنہیں عزیز تھے قصے کہانیاں اور پھول

صابر ظفر




یہاں ہے دھوپ وہاں سائے ہیں چلے جاؤ
یہ لوگ لینے تمہیں آئے ہیں چلے جاؤ

صابر ظفر




یہ ابتدا تھی کہ میں نے اسے پکارا تھا
وہ آ گیا تھا ظفرؔ اس نے انتہا کی تھی

صابر ظفر




یہ زخم عشق ہے کوشش کرو ہرا ہی رہے
کسک تو جا نہ سکے گی اگر یہ بھر بھی گیا

صابر ظفر




ظفرؔ ہے بہتری اس میں کہ میں خموش رہوں
کھلے زبان تو عزت کسی کی کیا رہ جائے

صابر ظفر




ظفرؔ وہاں کہ جہاں ہو کوئی بھی حد قائم
فقط بشر نہیں ہوتا خدا بھی ہوتا ہے

صابر ظفر




علاج اہل ستم چاہئے ابھی سے ظفرؔ
ابھی تو سنگ ذرا فاصلے پہ گرتے ہیں

صابر ظفر




عجب اک بے یقینی کی فضا ہے
یہاں ہونا نہ ہونا ایک سا ہے

صابر ظفر




اپنی یادیں اس سے واپس مانگ کر
میں نے اپنے آپ کو یکجا کیا

صابر ظفر