EN हिंदी
کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے | شیح شیری
khuli aankhon mein sapna jhankta hai

غزل

کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے

پروین شاکر

;

کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے

تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے

مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے

میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے

کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے

سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے