کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
وہ سویا ہے کہ کچھ کچھ جاگتا ہے
تری چاہت کے بھیگے جنگلوں میں
مرا تن مور بن کر ناچتا ہے
مجھے ہر کیفیت میں کیوں نہ سمجھے
وہ میرے سب حوالے جانتا ہے
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
کسی کے دھیان میں ڈوبا ہوا دل
بہانے سے مجھے بھی ٹالتا ہے
سڑک کو چھوڑ کر چلنا پڑے گا
کہ میرے گھر کا کچا راستہ ہے
غزل
کھلی آنکھوں میں سپنا جھانکتا ہے
پروین شاکر