EN हिंदी
دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا | شیح شیری
dhanak dhanak meri poron ke KHwab kar dega

غزل

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا

پروین شاکر

;

دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا

قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا

جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا

سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا

اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا

مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی
تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا