ایک میں نے ہی اگائے نہیں خوابوں کے گلاب
تو بھی اس جرم میں شامل ہے مرا ساتھ نہ چھوڑ
مظہر امام
آپ کو میرے تعارف کی ضرورت کیا ہے
میں وہی ہوں کہ جسے آپ نے چاہا تھا کبھی
مظہر امام
دوستوں سے ملاقات کی شام ہے
یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا
مظہر امام
چلو ہم بھی وفا سے باز آئے
محبت کوئی مجبوری نہیں ہے
مظہر امام
بستیوں کا اجڑنا بسنا کیا
بے جھجک قتل عام کرتا جا
مظہر امام
عصر نو مجھ کو نگاہوں میں چھپا کر رکھ لے
ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ ہوں
مظہر امام
اکثر ایسا بھی محبت میں ہوا کرتا ہے
کہ سمجھ بوجھ کے کھا جاتا ہے دھوکا کوئی
مظہر امام
اب اس کو سوچتے ہیں اور ہنستے جاتے ہیں
کہ تیرے غم سے تعلق رہا ہے کتنی دیر
مظہر امام
اب تو کچھ بھی یاد نہیں ہے
ہم نے تم کو چاہا ہوگا
مظہر امام