اپنے رستے ہوئے زخموں کی قبا لایا ہوں
زندگی میری طرف دیکھ کہ میں آیا ہوں
کسی سنسان جزیرے سے پکارو مجھ کو
میں صداؤں کے سمندر میں نکل آیا ہوں
کام آئی ہے وہی چھاؤں گھنی بھی جو نہ تھی
وقت کی دھوپ میں جس وقت میں کمھلایا ہوں
خیریت پوچھتے ہیں لوگ بڑے طنز کے ساتھ
جرم بس یہ ہے کہ اک شوخ کا ہمسایہ ہوں
صبح ہو جائے تو اس پھول کو دیکھوں کہ جسے
میں شبستان بہاراں سے اٹھا لایا ہوں
عصر نو مجھ کو نگاہوں میں چھپا کر رکھ لے
ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ ہوں
غزل
اپنے رستے ہوئے زخموں کی قبا لایا ہوں
مظہر امام