جو اب تک ناؤ یہ ڈوبی نہیں ہے
تو ساحل پر بھی بے چینی نہیں ہے
چلو ہم بھی وفا سے باز آئے
محبت کوئی مجبوری نہیں ہے
ذرا تاریکیوں کو بھی پکارو
کہ اتنی روشنی اچھی نہیں ہے
ابھی سے کانپتا ہے شمع کا دل
ابھی اس نے نقاب الٹی نہیں ہے
رہا کرتی ہے حسرت بن کے دل میں
متاع آرزو لٹتی نہیں ہے
حیات جاوداں پانے کی خاطر
حیات مختصر چھوٹی نہیں ہے
امامؔ آئیں ذرا اس بزم تک وہ
جنہیں احساس محرومی نہیں ہے
غزل
جو اب تک ناؤ یہ ڈوبی نہیں ہے
مظہر امام